اسلام میں دھوکا

جولائی 2007 کا ترجمہ

 

لفظ " مکرا" کی لسانیات

 

سورۃ 3  54 کی تفسیر

 

سورت 3  54 کا سیاق و سباق

 

سورۃ 3  54 کا مسلم اطلاقات

 

محمد کا احادیث میں جھوٹوں کی تصدیق کرنا

 

محمد مسلمان " عہدوپیمان کو منسوخ" کر سکتے ہیں –

 

اللہ نے یہودیوں کو دھوکا دیا اور اس کا مسیحوں کے متعلق دھوکا ہمیشہ مکمل ہوتا رہا-

 

اللہ غلطی کا موجد بنتا ہے-

 

لیکن بائبل کیا کہتی ہے –

 

حتی کہ اللہ مسلمانوں کو بھی دھوکا دیتا ہے –

 

قرآن کے غلط حصوں کی پیروی نہ کرو-

 

کیا تمھیں بھی اللہ دھوکا دے گا؟

 

شیطان محمد کی شکل میں ظاہر نہیں ہو گا لیکن کیوں ؟

 

ضمیمہ : سورۃ 3 : 54 کا انگریزی ترجمہ

 

" اور انھوں نے دھوکا دیا اور اللہ نے دھوکا دیا اور اللہ دھوکا دینے والوں میں سب سے بہترین ہے " سورۃ 3  54

 

سورۃ 3 :54 عربی:ومکرواومکر اللہ خیروالمکرین-

اسطرح جملہ اللہ کا " بہترین دھوکا باز ہونا " خیرالمکرین، سورۃ 8 : 30 اور 10 : 21 میں بھی استمعال ہوا ہے – کہ اللہ بڑا تیز منصوبہ کرنیوالہ/ دھوکا دینے والہ ہے – اللہ کے بہانے / حیلے / دھوکا دینے کے دوسرے حوالہ جات  سورۃ 7  99 ؛ 27  50  13  12 ؛ 14 : 46 ؛ 43  79 ؛ 86 : 15 ؛ 7 : 100 ؛4 142 ، پھر قرآن کا انگریزی ترجمہ مثالی طور پر زیادہ لچکدار جملہ رکھتا ہے – ضمیمہ کے طور پر میں ظاہر کرتا ہوں پس ان آیات میں ، خاص طور پر ، کیسے اس لفظ کا صحیح ترجمہ ہونا چاہیے  اور عام طور پر ، اسلام میں دھوکے کا کیا کردار ہے ؟

 

لفظ مکرا کی لسانیات

 

سورۃ 3 : 54 کہتی ہے کہ اللہ مکرا – عربی لفظ مکرا کا مطلب ہے دھوکا دینا- ریشہ دوانی یا منصوبہ / چال – عربی بائبل پیدائش 3 : 1 یہی لفظ شیطان کے لیے استعمال کرتی ہے تاہم وانڈ ڈائیک عربی ترجمہ عربی ترجمہ بنیادی لفظ ہائیلا استعمال کرتا ہے – یہ لفظ " سازشی " بڑا منصوبہ لفظ ہے جسکو وحر اور عبدالنور یوں بیان کرتا ہے " سلائی، قریبی ، مکار / عیار " عربی- عربی مسجد اسے خرا سے بیان کرتا ہے  جس کا مطلب ہے وہی چیز ہے ( بل کمبل اپنی کتاب " قرآن اور بائبل تاریخ اور سائنس کی روشنی میں " میں بیان کرتا ہے – صفحہ 217 – 218)

 

سورۃ 3 : 54 کی تشریح

 

وہ شخص جو مکر ہے ( لفظ کافر کی وہی شکل)ایک آدمی کی خصوصیات بیان کر رہا ہے جو کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ذہانت سے نیچا دکھاتا ہے – یہ اس شخص کے بارے بیان کرتا ہے جو اس کے منصوبے کے خلاف ظاہر ہوتا ہے – حقیقت یہ ہے کہ وہ اس شخص کے لیے بری چال چل رہا ہے – پس ہاں منصوبہ بندی کی سمجھ سوچ ہے اور چال کی مگر اس کا اکثر مطلب ہے کرتب ، ذہانت سے شکست دینا اور دوسرے پر فتح پانے اور غلبہ پانے کے مقصد کے لیے فریب دینا – ایک مکر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے خلاف خفیہ چال نصیحت کرتا ہے ہم معنی لفظ جھانسا ، ٹھگنا ، حق تلفی کرنا ، دھوکا دینا ، کرتب ان تمام حالات میںمکرا کا مطلب کسی کو شکست دینے کی سمجھ میں آتا ہے –

 

سورۃ 3 :54 کا سیاق و سباق

 

اس کہانی کا سیاق و سباق بہت ضروری ہے – سورۃ 3 محمد کے مسیحوں کے ساتھ عظیم مکالمے کے متعلق ہے – الطجری یہاں کہتا ہے  کہ اللہ کی عیاری اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب یہودیوں نےمریم کے بیٹے عیسی کو مارن چاہتے تھے -  اسے یہودی نہ ماریں اللہ نے یسوع کی شکل کسی اور کو دے دی جو یسوع کی بجاۓ مصلوب کیا گیا یہ ہے کیسے اللہ نے ہر ایک کو حتی کہ یسوع کو بھی دھوکا دیا-

جب صلیب کا وصت آیا تو بائبل کی تعلیم مرکزی حصہ میں اللہ خیروالمکرین کہلایا ( بہترین دھوکاباز) مطلب بہت مہارت ہوشیار والا یا ماہر – کوئی پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے کہ اس نے صلیب پر جنگ ہاردی ! یہاں اللہ کی حقیقی فطرت ظاہر ہوئی ہے –

 

سورۃ 3 : 54 کی مسلمان اطلاقات

 

دوسری خلیجی جنگ کے دوران عراقی وزیر اطلاعات نے اپنی عراقی فتوحات کی اپنی غلط رپورٹوں کو سورۃ 3  54 کے اقتباس سے دلیل سے ثابت کیا – یہ کہتے ہوۓ کہ " اللہ بہترین فریبی ہے " پس یہ ہے مسلمان کیسے اس لفظ اور آیت کا اطلاق کرتے تھے-

تقریبا 686 ء میں زائدہ بن قدمہ نے ایک اوردھوکا دہی کا مھصوبہ دیکھا- اور حوالہ دیا " خدا بہترین سازش کرنیوالا ہے " ( سورۃ 3 : 54 ) الطبری جلد 20 صفحہ 188

http://www.therelogionofpeace.com/Quran/011-taqiyya.htm

کہتا ہے 9 – 11 کی پرواز کی ترسیل کہتی ہے کہ ہائی جیکروں نے مسافروں کو بتایا کہ جہاز میں بم ہے لیکن ہر کوئی محفوظ ہو گا- اگر ان کے مطالبات پورے ہونگے- وہ بالکل ایک جھوٹ تھا ، لیکن ، کیا 9 – 11 کے ہائی جیکر ریاکار تھے؟ نہیں – وہ ریاکار نہیں تھے کیونکہ احادیث نے کہا ہے کہ ہم جنگ میںدھوکا دے سکتے ہیں – لیکن دوبارہ ، جب تک ، ہائی جیکروں نے جہاز کو قبضے میں نہ لے لیا- مردوں ، عورتوں اور بچوں کو نہیں پتہ تھا کہ ان کے ساتھی مسافر ان کے ساتھ جنگ پر ہیں – اب مسلمان علماء نہیں کہتے کہ مسلمان کسی وقت جھوٹ بول سکتے ہیں ، لیکن قدرے وہ غیر مسلموں سے جنگی معاملات میں جھوٹ بول سکتے ہیں- حفاظت کے لیے اور اسلام کی ترقی کے لیے بھی ، یہ آخری وجہ وضاحت کر سکے کیوں کچھ ( اگرچہ اکثریت نہیں ) مسلمان جن سے میں نے خط و کتابت کی – جھوٹی باتیں کہیں گے اسلام کی ترقی کے لیے –

ایک طوح سے ، مندرجہ ذیل میں نے ایک مسلمان سے حاصل کیا " ایک عام انسان کا اسلام کو پھیلانے کے لیے جھوٹ بولنا حرام ہے ( غیر شرعی ) اور اللہ اسے مجرم ٹھراتا ہے لیکن ایک عام انسان علم آزادنہ حاصل کرنے کے لیے ذمہ دار ہے جیسے نبی محمد نے بھی کہا یا تمام مسلمانوں ( مردوخواتین ) کے لیے اللہ کی پرستش سے پہلے علم حاصل کرنا لازمی ہے ، حدیث قدسیہ – لیککن ہم کوئی مسئلہ یا الجھن کو حل کرنے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں – یہ جائز ہے – جزا کے لائق ہے – میں نے مختلف ذرائع سے پڑھا ہے-" دوسرے لفظوں میں ، میں جھوٹ نے دیکھامسیحوں کے متعلق کچھ مسلمانوں نے بڑے ادھم مچانے والے جھوٹ بولے – لیکن اصلی غلطی کا ازالہ کیا گیا تو وہ وہی چیزیں اپنی ویب سائٹ پررکھتے ہیں  وہ نہ تو درست ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے ایڈریس ٹھیک ہوتے ہیں اورنہ ہی وہ واضح کرتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں – یہ ایک غلطی ہے –

 

محمد نے احادیث میں جھوٹوں کی تصدیق کی

 

چاپلوسی / خوشامدی جھوٹ امن کے لیے بولنا پھیک ہے " وہ جو لوگوں کے درمیان اچھی معلومات بنا کر یا کہہ کر امن قائم کرتا ہے یہ جھوٹ نہیں " بخاری جلد 3 کتاب 49 سبق 2 نمبر 857 صفحہ 533 – ابن ماجہ جلد 4 کتاب 20 سبق 5 نمبر 2544 صفحہ 6 " ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے کہا ، اگر کوئی کسی مسلمان کے گناہ چھپاتا ہے تو اللہ اسکے گناہ اس دنیا میں اور اگلے جہان میں چھپاۓ گا" مترجم کے نوٹسکہتے ہیں-" ایک دوسرا ترجمہ یہ ہے اگر کوئی کسی مسلمان کو ، اسکے ذاتی اعضاء ڈھانپنے کے لیے کپڑے مہیا کرتا ہے حدیث نمبر 2546 اس ترجمہ کی تائب کرتی ہے "

"جابر کابیان ہے ، نبی نے کہا جو کعب بن اشرف ( یہودی ) کو مارنے کے لیے تیار ہے – تو محمد بن سلاما نے جواب دیا ، کیا تم اسے مارنے کے لیے مجھے پسند کرتے ہو ؟ نبی نے مثبت میں جواب دیا- محمد بن مسلماء نے کہا- پھر مجھے جو میں پسند کرتا ہوں کہنے کی اجازت دو-( یعنی جھوٹ بولنے کی ) نبی نے جواب دیا میں تجھے اجازت دیتا ہوں" بخاری جلد 4 کتاب 52 سبق 159 نمبر 271 صفحہ 168- الطبری جلد 7 صفحہ 95 ، اسی طرح رپورٹ اسے کرتا ہے- " ہمیں جھوٹ بولنا پڑے گا" محمد اسے بتاتا ہے " جو تجھے پسند ہے کہو" بخاری جلد کتاب 45 سبق 3 نمبر 687 صفحہ 415 "جابر بن عبداللہ سے روایت ہے ، اللہ کے رسول نے کہا ، کون کعب بن الاشرف کو اللہ اور رسول کی طرح نقصان پہنچاۓ گا-؟محمد بن سلاما نے اٹھ کر ، میں اسے ماروں گا- پس بن مسلما کے پاس ‏گیا اور کہا میں ایک یا دو وانسک اناج ادھار لینا چاہتا ہوں "" بحث و مباحثہ کے بعد ، کوئی چیز رہن رکھنے کو کہا" وہ متفق ہو گے- کہ محمد بن مسلاما اپنے ہتھیار رہن رکھے گا، پس اس نے اس سے وعدہ کیا کہ اگلی بار اپنے ہتھیار لے کر آئیگا" پھر وہ واپس آیا، جب کعببن الہشرف امید کررہا تھا کہ وہ پرامن آئیگا اور محد بن مسلاما نے اسے دھوکے سے قتل کردیا- مندرجہ ذیل بھی کعب بن الاشرف کے قتل کی بحث کرتے ہیں-بخاری جلد 5 کتاب 59 سبق 14 نمبر 369 صفحہ 248  صحیح مسلم جلد 3 کتاب 17 سبق 744 نمبر 4436 صفحہ 990 – 991 ابوداؤد جلد 2 کتاب 9 سبق 1051 نمبر 2762 صفحہ 775 ابوداؤد جلد 2 کتاب 13 سبق 1110 نمبر 2994 صفحہ 850 الطبری جلد 9 صفحہ 121 کہتی ہے کہ یہ بدر اور کے درمیان واقع ہوئی جنگ دھوکا ہے ابن ماجہ جلد 4 کتاب 24 (جہاد ) سبق 27 نمبر 2833 صفحہ 181 حنگ دھوکا ہے – بخاری جلد 4 کتاب 52 سبق 157 نمبر 268 -269 صفحہ 167- اس کو نافذ کرنے مسئلہ یہ ہے کہ کعب بن الاشرف کو خیال نہیں تھا کہ محمد بن مسلاما اس سے جنگ میں ہے- پس اگر ایک مسلمان فیصلہ کرتا ہے وہ تم سے (کافر) جنگ میں ہے – تو وہ تم سے صاف جھوٹ بول سکتا ہے جبکہ تم خیال کرتے ہو کہ وہ تمھارا دوست ہے – وہ تم سے کچھ ادھار لینے آئیگا-

 

مسلمان اپنے " عہدوپیمان منسوخ "کر سکتے ہیں

 

بخاری جلد 7 کتاب 67 سبق 26 صفحہ 309 محمد نے کہا " اللہ کی قسم اور اللہ راضی ہے اگر میں ایک کھاتا ہوں اور بعد میں کوئی بہتر پاتا ہوں- انہوں نے سکھایا اور کئی مسئلوں میں وہ اس ایمان کی خاطر کہ " یسوع صلیب پر مر گیا اور مردوں میں سے جی اٹھا" مر گۓ-

 

اللہ غلطی کا موجد(سبب) بنتا ہے

 

سورۃ40  32- 33 اے میرے لوگو! میں اس دن کے متعلق خوف زدہ ہوں جب ہر طرف ماتم ہو گا- کوئی بھی تمہیں سے نہیں بچاۓ گا- وہ جس سے اللہ غلطی کرواۓ گا- کوئی رہنما نہیں ہو گا- یہ ہے کیسے اللہ گمراہ کرتا ہے"یہ آیات کہتی ہیں کہ اللہ گمراہ کرتا ہے اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ جنت میں یا جہنم میں جانا – پس اگر کوئی شخص جہنم کے لیے ہے بتوں کی پوجا کرتا ہے اللہ-

 

1 ) اللہ ان سے ناراض ہے کیونکہ وہ اس پر یقین نہیں کرتے جو وہ تصور کرتے ہیں-

2 ) مبارک ، کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں جس کا وہ تصور کرتے ہیں کیونکہ اللہ نے اس ایمان کی طرف ان کی رہنمائی کی- اگر ایک مسلمان جواب دیتا ہے "1) (جیسے وہ اگر چاہتے ہیں) پھر اللہ کیوں لوگوں سے ناراض ہے کون پیروی کرتا ہے جہاں وہ ان کی راہنما‏‏‏ئی کرتا ہے ؟

 

لیکن بائبل کیا کہتی ہے؟

 

بائبل میں کسی جگہ بھی یہ نہیں آیا کہ حدا جھوٹ بولتا ہے ، دھوکا دیتا ہے یا فریب پیدا کرتا ہے،اگرچہ خدا نے گمراہ کرنیوالی تاثیر بھیجی اور دلوں کوسخت کیا- جبکہ بائبل میں خدا نے فرعون کے دل کوسخت کیا، اور دلوں کو سخت کیا- جبکہ بائبل میں خدا نے فرعون کے دل کو سخت کیا، فرعون نے پہلے اپنے دل کو سخت کیا- اسی طرح آج لوگوں کے لیے جو خدا کے خلاف اپنے دل سخت کرنے کا انتخاب کرتے ہیں- اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ خدا مزید ان کے دلوں کو سخت کردیتا ہے- ان کے لیے جنہوں نے جھوٹ کے لیے خدا کی سچائی کو تبدیل کرنے کا انتخاب کیا-رومیوں 1 25 – 31 " خدا ان کو گندی شہوتوں میں چھوڑدیا"2 تھسلنیکیوں 2 10-11 میں لکھا ہے "ان کے لیے جنھوں نے حق کی محبت حاصل نہ کی،خدا انکے پاس گمراہ کرنیوالی تاثیر بھیجے گا-"پس خدا نے گمراہ کرنیوالی تاثیر نہیں پیدا کی بلکہ خدا نے اردادتا ان کے پاس گمراہ کرنیوالی تاثیر بھیجی-آپ اس مسئلے کی تفصیل کا بیان،1 سلاطین 22 : 19-23 میں پڑھ سکتے ہیں- مسلمانوں کے لیے وہی تصور ہو سکتا ہے یا غیر ایمانداروں کے لیے دھوکا پھرے ، یا غیر ایمانداروں کو مزید گمراہ کر سکے- سورۃ 5 :41 کہتی ہے " اگر کسی کی آزمائش (غیر یقینی کا )اللہ سے ملحوظ رکھی جاۓ تو تمہارے پاس اللہ کے خلاف اسکے لیے کوئی اختیار نہیں- ایسے کے لیے ان کے دلوں کو خالص کرنے کے لیے مرضی نہیں"سورۃ 74 31"------- پس کیا اللہ نے ان کو گمراہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا جن سے وہ راضی ہے اور ان کی رہنمائی کرتا ہے جن سے وہ خوش ہے اور تم میں کوئی بھی اپنے مالک کی طاقتوں کو نہیں جان سکتا-----"تاہم اسلام کے مطابق اللہ نے حتی کہ اپنے پیروکاروں کو بھی یسوع کے زمانے میں دھوکا دیا – اگلے فعل میں ،اللہ ذاتی طور پر حتی اپنے مسلمان پیروکاروں کو بھی دھوکا دیتا ہے – یہاں بائبل میں کیسے خدا اور شیطان جھوٹ استعمال کرتے ہیں-

 

       خدا                                                     شیطان

جھوٹ نہیں بولتا(گنتی 23 :19 )                  شروع سے جھوٹ بولتا ہے

1 – سموئیل 15 :29                                  پیدائش 3 :4

خدا کے لیے جھوٹ بولنا ناممکن                   جھوٹوں کا باپ یوحنا 8 :44

ہے- عبرانیوں 6 :18

بدی سے نہیں آزماتا،یعقوب1 :13                 بدی سے آزماتا ہے

                                                            متی 4 :1-10 

               

نور ہے یوحنا 1 : 8 ،1 یوحنا 1:15                نورانی فرشتے کی ہمشکل بنا

                                                           لیتا ہے،2 –کرنتھیوں 11 :14

فرشتے اس کے نوکر ہیں                           ریاکاری کے طور پر نوکر

عبرانیوں1 : 5                                          2 کرنتھیوں11 :15

 

بائبل ہمیں خبردار کہ ہر روح کا اعتبار نہ کرو ، بلکہ روحوں کو آزماؤ-

1 یوحنا 4 :1 اور بائبل آگاہ کرتی ہے کہ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو- متی 7 :15 – پس کوئی کیسے بتا سکتا ہے کہ وہ غلطی سے جھوٹی کی پیروی کر رہے ہیں؟

 

 

 

حتی کہ اللہ مسلمانوں کو بھی دھوکا دیتا ہے

 

اور پھر صرف یہ قوم (مسلمان) رہے گی، بشمول ان کے ریاکار اللہ ان کے پاس کسی دوسری شکل میں آئیگا اور کہے گا میں تمہارا خداوند ہوں ، وہ کہیں گے، ہم تم سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں- یہ ہماری جگہ ہے )(ہم ، تیری پیروی نہیں کریں گے ) جب تک ہمارا خداوند ہمارے پاس نہ آۓ ، اور جب ہمارا مالک ہمارے پاس آئیگا تو ہم اسے پاچان لیں گے ، پھر جب اللہ ہن کے پاس آئیگا ان شکل میں جو وہ جانتے ہیں اور کہے گا،میں تمہارا خداوند ہوں ، وہ کہیں گے ( بے شک) تو ہمارا خداوند ہے ، اور وہ اس کی پیروی کریں گے"بخاری جلد 8 کتاب 76 سبق 52 نمبر 577 صفحہ 375 ، صحیح مسلم جلد 1 کتاب 1 سبق 81 نمبر 349 صفحہ 115،

اب ایک مسلمان نے مجھے بتایا کہ لفظ" دھوکا دینا" حوالے میں موجود نہیں- اللہ کوئی جھوٹا لفظ نہیں بول رہا، اور یہ آسمان میں رونما ہوتا ہے ، نہ کہ زمین پر ، تاہم ، اس کی ضرورت نہیں کہ لفظ "دھوکا دینا"استعمال کرکے لوگوں کو دھوکا دیں اور جب اللہ کسی روپ دھارے ، وہ اللہ نہیں ہے – وہ جنہوں نے اللہ کے کلام پر یقین رکھا جب اللہ اس جھوٹی شکل میں ہے تو یہ جہنم میں جانے کے لیے ہے- اگر یہ دھوکا نہیں ، تو پھر یہ کیا ہے ؟ ہم تمام اس حدیث کی تعلیم سے متفق ہو سکتے ہیں کہ مستقبل میں اللہ مےلمانوں پر اپنے آپکو ارادتا دوسری شکل میں ظاہر کرے گا"دوسری شکل جو وہ نہیں جانتے " اللہ کی شکل کیسی ہے ؟ میں کسی مسلمان کو کہتے نہیں سنا یہاں تک کہ  ایک مسلمان نے مجھے بتایا اللہ غالبا انسانی شکل رکھتا ہے – یہ بحاری ہمیں کیا بتاتی ہے والیم 9 کتاب 93 سبق 24 نمبر 532 صفحہ 396 – "جب وہ اللہ کی پوجا کرتے ہیں ، باقی رہیں ، تودونوں فرمانبردار اور شریر دونوں ( اور وہ کہیں گے ) ، اور اب ہم اپنے خداوند کا انتظار کر رہے ہیں ، پھر قادر مطلق ان کے پاس آئیگا ، اس شکل میں نہیں جو انھوں نے پہلے دیکھی تھی اور وہ کہے گا ،میں تمھارا خداوند ہوں ، اور وہ کہیں گے تو تمھارا خداوند نہیں" اور کوئی بھی اس سے بات نہیں کر یگا پھر لیکن انبیاء اور پھر ان سے کہا جائیگا، کیا تم کسی نشانی کو جانتے ہو جس سے تم اسے پہچان سکو ؟ وہ کہیں گے- "پنڈلی کا اکلا حصہ " اور پس اللہ پھر اپنی پنڈلی ڈھانپے گا، وہاں ہر مومن اس کے سامنے گر کر سجدہ کرتے ہیں- صرف دکھانے کے لیے اور اچھی شہرت حاصل کرنے کے لیے- یہ لوگ سجدہ کرے کی کوشش کریں گے لیکن ان کی پشتیں لکڑی کے ایک ٹکڑے کی طرح سخت ہو جائیں گے ( اور وہ سجدہ کرنے کے قابل نہیں ہونگے ) پھر جہنم کے آس پاس ایک پل رکھا گیا-------؛

پس اس کے باوجود بھی ہو سکتا آج مسلمان کہیں ، بخاری کہتی ہے کہ اللہ کی ایک حقیقی جسمانی شکل آسمان میں ہے ، امر اللہ اپنے آپکو مسلمانوں پر جھوٹی جسمانی شکل میں بھی ظاہر کرے گا- جیسے ومہ انکی ایک قسم کی آزئش ( بڑی آزمائش ) کرتا ہے – اس کے برعکس ، یعقوب 1 : 13 کہتی ہے" جب کوئی آزمایا جاۓ-تو یہ نہ کہے کہ میری آزمائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے"

 

قرآن کے غلط حصوں کی پیروی نہ کرو

 

بخاری جلد 6 کتاب 60 سبق 9 نمبر 8 صفحہ 10 " عمر نے کہا ہمارا قرآن کا سب سے بہتر تلاوت کرنیوالا اوبائی ہے اور ہمارا بہترین منصف علی ہے ؛ اور کاسکے باوجود بھی ، ہم اوبائی کے کچھ بیانات چھوڑتے ہیں کیونکہ اوبائی کہتا ہے میں کوئی چیز نہیں چھوڑتا جو میں نے اللہ کے رسول سنی جبکہ اللہ نے کہا ، جو آیات بھی ہم نے سنیں ہم (اننہ ) ان کو ترک کرتے ہیں – یا بھول گۓ لیکن ہم ( اللہ ) ان سے بہتر لاتے ہیں یا اسی سے ملتا جلتی – 2 :106 ------"

تم متروک آیات کے بارے کیا خیال کرتے ہو ؟

1 ) آیات جو قرآن میں ابھی تک ہیں لیکن مسلمان ان کی پیروی کرنا ضروری نہیں-

2)آیات جو قرآن میں ہوا کرتی تھیں ( کچھ کا خیال ہے ترمیم کے قابل ) لیکن زیادہ دیر تک

3 ) ہم اندونوں کی مثالیں حاصل کر سکتے ہیں-

یہ ہر پہلو سے غور کرتا ہے کہ مسلم احادیث ہم پر ظاہر کرتیہیں کہ (3) درست جواب ہے – مثالیں 1 کی سورۃ 72 :2 – 3 منسوخ ہے – سورۃ 73 : 20 ، ابوداؤد جلد 1 کتاب 2 سبق 457 نمبر 1299 صفحہ 343 ایک منسوخ روایت کی ایک مثال متاہ ہے ( عارضی شادی) مختصر وقت کے لیے – جیسے ایک دن یا ایک دن کے لیے محمد نے اجازت دی لیکن سنیوں کے مطابق بعد میں منسوخ کردیا گیا- تاہم ، شعیہ فقرہ ، ایمان رکھتے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں ہوا-

2 کی مثال )" انس بن ملک سے روایت ہے:------ ان کے متعلق بیر معونا کے موقع پر مر گۓ – ایک قرآنی آیت تلاوت کی جاتی تھی- لیکن یہ بعد میں منسوخ ہو گئی—آیات یہ تھی : ہمارے لوگوں کو بتا دو – کہ ہم اپنے خداوند سے ملے ہیں- وہ ہم سے راضی تھی – اور اس نے ہمیں خوش کردیا ہے – " بخاری جلد 4 کتاب 52 19 نمبر 69 صفحہ 53 یہ آج قرآن میں کہیں نہیں-

ویسے مجھے امید ہے تمھیں کوئی دھوکا دینے کی کوشش نہیں کرتا کہ قرآن تبدیل نہیں ہوا یا ہرچیز کی پیروی ہونی چاہیے- فہرست صفحہ 81 – 82 پر 18 کتابوں کی فہرست درج ہے  جو منسوخ کے متعلق ہے اور قرآن میں کچھ منسوخ کیا کیا ہے کے متعلق مسلمان مترجم علما بخاری جلد جلد 6 حاشیہ 1 صفحہ 506 میں ذکر کرتے ہیں کہ قرآنی آیات کے لیے ایک خاص اصطلاح ہے کہ منسوخ نہیں ہوا : " مخم" اگرچہ دوسرے ذرائع ان کو "موخم" کہتے ہیں-

 

کیا اللہ تمہیں بھی دھوکا دے گا-؟

 

اسلام سے ایک جواب ہے کہ تم بہتر ہو – تم سے زیادہ سوال نہیں پوچھے جائیں گے-

بخاری جلد 2 کتاب 24 سبق 52 نمبر 555 صفحہ 323 " میں نے نبی کو یہ کہتے سنا-، اللہ تین چیزوں کی وجہ سے تم سے نفرت کرتا ہے اور اتنے زیادہ سوال پوچھے گا-------"

سورۃ 5 :101 "مومنو !ان چیزوں کے متعلق سوال نہ پوچھو جس سے تم شکوہ کرو اور تمھیں نشر کریں جس سے تم پریشان ہو سکتے ہو – جس سے تم مصیبت میں پھنستے ہو-

سورت5 :102 " تم سے پہلے کچھ لوگوں نے ایسے سوال پوچھے اور اس بیان پر وہ اپنے ایمان کو بھول گۓ اور وہ مرتد ہو گۓ"

 

شیطان محمد کا روپ نہیں دھارے گا لیکن کیوں؟

 

پس حتی کہ ، اللہ فریبی شکل میں آسکتا ہے اور مسلمانوں کو دھوکا دے سکتا ہے کہ جھوٹے خدا کی عبادت کریں یو سوچتے ہوۓ ، علی اور محمد الہی ہیں اور وہ اللہ کا حصہ ہیں ، احادیث کہتی ہیں شیطان محمد کا روپ نہیںدھار سکتے " ----- اور جو کوئی مجھے ( محمد ) خواب میںدیکھتا ہے وہ یق؛نا مجھے دیکھتا ہے کیونکہ شیطان میرا روپ نہیں دھار سکتا ( یعنی میری شکل میں ظاہر ہونا ) اور جو کوئی جان بوجھ کر جھوٹ سے مجھے کسی سے منسوب کرتا ہے ، تو وہ یقینا جہنم کی آگ میں جائیگا-"بخاری جلد 8 کتاب 73 سبق 109 نمبر 217 صفحہ 139 – 140 صحیح مسلم جلد 9 کتاب 27 سبق 948 نمبر 5635 – 5639 صفحہ 1225 – 1226

ایک جواب جو میں نے کبھی کسی مسلمان سے نہیں سنا ، یہ ہے کہ کیوں مسلمان سوچتے ہیں کہ اللہ فریبی شکل میں ظاہر ہونے کے لیے انتخاب کرے گا- لوگوں کو ایک جھوٹے خدا کی شکل پوجا کرنے کے لیے دھوکا دیا جا سکتا ہے ، پھر بھی شیطان محمد کا روپ میں کبھی نہیں آئیگا- اس سوال کے جواب یا مزید معلومات کے لیۓ

  پر مجھ سے رابطہ کریں-www.Muslimhope.com

 

ضمیمہ : سورۃ 3 : 54 کا انگریزی ترجمہ

قرآن کے انگریزی ترجمے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ پوشیدہ حقیقی معنی ظاہر کرتے ہیں –

3 : 54 کا یوسف علی کا ترجمہ : اور ( کافروں) سازباز کی اور منصوبہ بنایا اور اللہ نے بھی منصوبہ بنایا اور اللہ سب سے بہتر منصوبہ ساز ہے "

 

سورۃ 3 : 54 اربری کا ترجمہ : 45 – 50 کے درمیان : " اور انہوں نے تدبیر کی اور اللہ نے تدبیر کی اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنیوالا ہے "

 

ملک کا 3 : 54 کا ترجمہ: " اسرائیلی لوگوں میں سے کافروں نے عیسی کے خلاف سازباز کی اور اللہ نے بھی ایک منصوبہ کی تدبیر کی اسکو اٹھانے کے لیے اور اللہ سب سے بہتر ساز باز کرنیوالا ہے "

 

جے – ایم روڈ ویل کا 3 : 54 کا ترجمہ : 40 – 50 کے درمیان : " اور یہودیوں نے ساز باز کی ، اور اللہ نے ساز باز کی لیکن ان ساز بازوں میں اللہ بہتر ساز باز کرنیوالا ہے – "

 

3: 54 کی پکتھل کا ترجمہ : " اور انہوں ( کافروں ) نے ایشہ دوانی کی ( ان کے خلاف ) اور اللہ بہتر ایشہ دوانی کرنیوالا ہے "

 

مولوی شہر علی ایک احمدی کا ترجمہ: " اور انوں نے ساز باز کی، اور اللہ نے بھی ساز باز کی اور اللہ بہترین ساز باز کرنیوالا ہے " یوسف علی ، قرآن کے اپنے ترجمے میں کہتا ہے کہ " مکرا " اچھا یا برا ہو سکتا ہے مثبت یا منفی ( صفحہ 156 ، حاشیہ 393 سورۃ 3 : 54 کا ) فارسی میں ، لفض اور مکر عربی سے لیے گۓ ہیں اور یہ نمایا ں طور پر ہمیشہ منفی ہوتاہے- قرآن کے یہ ترجمے یوسف علی کے ریوائزڈ ترجمے سے لیۓ گۓ ہیں -